علامہ سید ابن حسن جارچوی
علامہ سید ابن حسن جارچوی 1905 میں جارچہ ضلع بلند شہر یو پی بھارت میں پیدا ہوئے ۔ بچپن ہی میں والدین کا سایہ سر سے اُ ٹھ گیا تو ان کی تین بہنوں نے ان کی پرورش کی میٹرک کرنے کے بعد علامہ ابن حسن جارچوی میرپور بھٹورو ضلع ٹھٹھ سندھ اپنے بہنوئی جناب سید شبیر حسین صاحب کے پاس آگئے جہاں تھوڑے ہی عرصہ میں اپنی دینی و قومی سرگرمیوں کی وجہ سے عوام میں مقبولیت حاصل کر لی۔
سکھر 1923 میں آل انڈیا شیعہ کانفرس کا اجلاس منقعد ہوا تو علامہ سید ابن حسن جارچوی نے اس میں شرکت فرمائی اور اپنی بصریت افروز تقریر سے لوگوں کے دل موہ لیےاس اجلاس کی صدارت شمس العلماء مرزا قلیج بیگ نے فرمائی اور سابق چیف جسٹس جناب آغا حسن علی نے مہمان خصوصی کی حثیت سے اجلاس میں شرکت فرمائی ہر دو حضرات نے علامہ سید ابن حسن جارچوی کی دینی و ملی فراست کی داد دئی اس کانفرس میں نواب آف خیر پور بھی تھے جو ہمیشہ علامہ
سید ابن حسن جارچوی کے مداح رہے۔
کچھ عرصہ بعد علامہ سید ابن حسن جارچوی کی صلاحیتں انہیں پنجاب لے آئیں جہاں لاہور میں قیام کےدوران انہوں نے پنجاپ یونیورسٹی سے بی اے ایم اے ایم او ایل کے امتحانات امتیازی حثیت سے پاس کئے اس کے بعد علامہ سید ابن حسن جارچوی علی گڑھ پہنچے اور بی ٹی کا امتحان پاس کیا بی ٹی کرنے کے بعد علامہ سید ابن حسن جارچوی دہلی پہنچے جہاں سے 1931 تا 1938 تک جامعہ ملیہ کالج موجودہ یونیورسٹی سے وابستہ رہے جہاں بھارت کے سابق صدر ڈاکٹر ذاکر حسین جامعہ ملیہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمود حسین اور ڈاکٹر عابد حسین ان کے
ساتھیوں میں سے تھے۔
علامہ سید ابن حسن جارچوی 1938 میں دہلی سے ریاست محمود آباد چلے گئے جہاں موجودہ راجہ صاحب محمود آباد کے والد صاحب نے انہیں راجہ صاحب کا اتالیق مقرر کیا علامہ سید ابن حسن جارچوی1948تا 1951 تک شیعہ ڈگڑی کا لج
لکھنوء کے پرنسپل رہے اور اس دوران یوپی شیعہ بورڈ کے صدر بھی رہے۔
علامہ صاحب 1951میں بھارت سے ہجرت کرکے کراچی تشریف لائے اور جامعہ کراچی کے شعبہ معارف اسلامیہ سےمنسلک ہوگئے جہاں سے1970میں ریٹائرہوئے۔علامہ صاحب ممتاز ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ شعلہ بیان مقرربھی تھے اور سیاست میں گہری دسترس رکھتے تھے چنانچہ تحریک پاکستان مین ان کو اور ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا1945میں سرکرپس مشن بھارت آیا اور اس نے قائداعظم محمد علی جناح سے معلوم کیا کہ آپ پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟اس کے متعلق اسلامی نظریہ پیش کیاجائے تو قائداعظم نے علامہ ابن حسن جارچوی اور مولانا شبیراحمدعثمانی کومشن کے سامنے پیش ہوکر مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے بارے میں تفصیلات اور اسلامی نکتہ نظر پیش کرنے کا کام سپرد کیا چنانچہ علامہ جارچوی اور مولاناشبیراحمدعثمانی نے یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا اورمسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے بارے میں اپناموقف نہایت
واضح طور پر وفد کو سمجھایا جس کی دادقائداعظم مرحوم نےبھی دی۔
علامہ جارچوی ابتداہی سے مسلم لیگ کے لئے دن رات کام کرتےرہے لیکن جب1936میں قائداعظم لنڈن سے واپس آئےاور مسلم لیگ کی صدارت قبول فرمائی توعلامہ جارچوی نے قائداعظم کی رہبری میں انتہائی خوش وخروش سےکام شروع کیا اورپھرمرتے دم تک پاکستان اورمسلم لیگ کی ٹھوس اور تعمیری خدمات بجالاتےرہےپاکستان کوصیح معنوں میں اسلامی مملکت بنانے کے سلسلہ میں علامہ صاحب نے جوخدمات سرانجام دیں وہ تاریخ پاکستان میں ہمیشہ سہنری حروف میں لکھی جائیں گی۔
علامہ صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ کے قیام کا بیڑہ اٹھایا اور اس کے لئے حکومت پاکستان سپر ہائی وئے فیڈل بی ایریا کراچی میں قطعہ زمیں حاصل کیا لیکن موت نے علامہ مرحوم کو اس کی تکمیل کی مہلت نہیں دی۔
علامہ مرحوم شعلہ بیان مقررتھے وہاں وہ بہترین لکھنےوالےبھی تھے ان کی تحریروں میں ان کی تقریروں کا رنگ جلکتاتھاان کی تحریر ایسی جاذبیت جاشنی کشش اور ولولہ ہوتا تھا کہ ان کی تحریر کو بار بار پڑھنےکو دل چاہتا ہے ان کو قلم پر ایسی قدرت حاصل تھی کہ وہ اپنے مافی الضمیر کا اظہار ایسے اچھوتے اور پرجوش انداز میں فرماتے تھے کہ پڑھنے والوں کے سامنے نقشہ کھنچ جاتاتھا علامہ مرحوم کی مندرجہ ذیل تصانیف پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
فلسفہ آل محمد چار جلدوں میں
تذکرہ آل محمد تین جلدوں میں
حضرت علی کا طرز جہانبانی،انگریزی واردو،عہدماموں وحضرت امام رضا اور جدید ذاکری کے علاوہ ابھی کئی تضنیفات زیر تکمیل تھیں کہ انہوںنے داعی اجل کو لبیک کہا۔
مرحوم کو اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ کے احاطہ میں سپردخاک کیا گیانماز جنازہ مولانا نصیر حسین اجتہادی نےپڑھائی نماز جنازہ میں علمائے کرام اراکین اسمبلی اور عمائدین شہر نے بڑی تعداد میں شرکت فرمائی۔
علامہ جارچوی نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ دو صاحبزادے سید محمد مشہود اور سید علی حسن اور دو صاحبزادیاں چھوڑی۔
لکھنوء کے پرنسپل رہے اور اس دوران یوپی شیعہ بورڈ کے صدر بھی رہے۔
علامہ صاحب 1951میں بھارت سے ہجرت کرکے کراچی تشریف لائے اور جامعہ کراچی کے شعبہ معارف اسلامیہ سےمنسلک ہوگئے جہاں سے1970میں ریٹائرہوئے۔علامہ صاحب ممتاز ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ شعلہ بیان مقرربھی تھے اور سیاست میں گہری دسترس رکھتے تھے چنانچہ تحریک پاکستان مین ان کو اور ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا1945میں سرکرپس مشن بھارت آیا اور اس نے قائداعظم محمد علی جناح سے معلوم کیا کہ آپ پاکستان کیوں بنانا چاہتے ہیں؟اس کے متعلق اسلامی نظریہ پیش کیاجائے تو قائداعظم نے علامہ ابن حسن جارچوی اور مولانا شبیراحمدعثمانی کومشن کے سامنے پیش ہوکر مسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے بارے میں تفصیلات اور اسلامی نکتہ نظر پیش کرنے کا کام سپرد کیا چنانچہ علامہ جارچوی اور مولاناشبیراحمدعثمانی نے یہ کام نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا اورمسلمانوں کی علیحدہ مملکت کے بارے میں اپناموقف نہایت
واضح طور پر وفد کو سمجھایا جس کی دادقائداعظم مرحوم نےبھی دی۔
علامہ جارچوی ابتداہی سے مسلم لیگ کے لئے دن رات کام کرتےرہے لیکن جب1936میں قائداعظم لنڈن سے واپس آئےاور مسلم لیگ کی صدارت قبول فرمائی توعلامہ جارچوی نے قائداعظم کی رہبری میں انتہائی خوش وخروش سےکام شروع کیا اورپھرمرتے دم تک پاکستان اورمسلم لیگ کی ٹھوس اور تعمیری خدمات بجالاتےرہےپاکستان کوصیح معنوں میں اسلامی مملکت بنانے کے سلسلہ میں علامہ صاحب نے جوخدمات سرانجام دیں وہ تاریخ پاکستان میں ہمیشہ سہنری حروف میں لکھی جائیں گی۔
علامہ صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ کے قیام کا بیڑہ اٹھایا اور اس کے لئے حکومت پاکستان سپر ہائی وئے فیڈل بی ایریا کراچی میں قطعہ زمیں حاصل کیا لیکن موت نے علامہ مرحوم کو اس کی تکمیل کی مہلت نہیں دی۔
علامہ مرحوم شعلہ بیان مقررتھے وہاں وہ بہترین لکھنےوالےبھی تھے ان کی تحریروں میں ان کی تقریروں کا رنگ جلکتاتھاان کی تحریر ایسی جاذبیت جاشنی کشش اور ولولہ ہوتا تھا کہ ان کی تحریر کو بار بار پڑھنےکو دل چاہتا ہے ان کو قلم پر ایسی قدرت حاصل تھی کہ وہ اپنے مافی الضمیر کا اظہار ایسے اچھوتے اور پرجوش انداز میں فرماتے تھے کہ پڑھنے والوں کے سامنے نقشہ کھنچ جاتاتھا علامہ مرحوم کی مندرجہ ذیل تصانیف پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
فلسفہ آل محمد چار جلدوں میں
تذکرہ آل محمد تین جلدوں میں
حضرت علی کا طرز جہانبانی،انگریزی واردو،عہدماموں وحضرت امام رضا اور جدید ذاکری کے علاوہ ابھی کئی تضنیفات زیر تکمیل تھیں کہ انہوںنے داعی اجل کو لبیک کہا۔
مرحوم کو اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ کے احاطہ میں سپردخاک کیا گیانماز جنازہ مولانا نصیر حسین اجتہادی نےپڑھائی نماز جنازہ میں علمائے کرام اراکین اسمبلی اور عمائدین شہر نے بڑی تعداد میں شرکت فرمائی۔
علامہ جارچوی نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوہ دو صاحبزادے سید محمد مشہود اور سید علی حسن اور دو صاحبزادیاں چھوڑی۔
No comments:
Post a Comment